Naveed
جمعرات , 09 جولائی 2020ء
(625) لوگوں نے پڑھا
(17 جون 2020)تین فروری ۲۰۱۶ دوپہر کے وقت شہر کی ایک دُکان کے باہر دھوپ میں بیٹھے اللہ دتہ گاہکوں کا انتظار کر رہے تھے تو ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ فون سنتے ہی وہ اتنے پُرجوش ہوئے کہ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔یہ ان کی 52 سالہ زندگی میں شاید پہلا موقع تھا جب وہ غم نہیں بلکہ خوشی کے آنسو بہا رہے تھے۔ انہیں بتایا کہ میری بیٹی سونیا کا فون تھا بتا رہی تھی کہ وہ پاکستان کی قومی کبڈی ٹیم میں منتخب ہو گئی ہے۔ ۵۲ سالہ اللہ دتہ صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کی سب سے بڑی تحصیل جڑانوالہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 128 گ ب میں ڈھائی مرلے کے بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں۔ان کے بقول تین فروری 2016 ان کی زندگی کا حسین ترین دن تھا۔ اس دن انہوں نے جیب میں قلیل رقم ہونے کے باوجود بازار اور محلے میں مٹھائی بانٹی تھی۔اللہ دتہ کا کہنا تھا کہ میرے سات بچے ہیں جن کو پالنے کے لیے میں نے زندگی بھر محنت مزدوری کی ہے، کبھی فیکڑی میں کام کیا تو کبھی گدھا ریڑھی چلا کر گھر کا خرچ چلایا لیکن وسائل کی شدید کمی کے باوجود میری بیٹی نے کامیابی کا طویل سفر طے کیا ہے، مجھے اس پر فخر ہے۔ اکیس سالہ سونیا صدف ۲۰۱۶ سے اب تک پاکستان ویمن کبڈی ٹیم کی مستقل رکن ہیں۔ وہ ٹیم میں بطور ریڈر کھیلتی ہیں اور سنہ ۲۰۱۶ میں انڈیا میں ہونے والی بارہویں ساؤتھ ایشین گیمز کے ایک مقابلے میں پلیئر آف دی میچ کا اعزاز بھی اپنے نام کر چُکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دسمبر ۲۰۱۶ میں ہونے والی پہلی نیشنل ویمن کبڈی چیمپیئن شپ میں واپڈا کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان آرمی کے خلاف فائنل میچ جیت کر سونے کا تمغہ بھی حاصل کر چکی ہیں۔سونیا کے بقول مجھے بچپن سے ہی اتھلیٹکس کا شوق تھا۔ پانچویں کلاس میں سکول میں سپورٹس ڈے منعقد ہوا تو میں نے دوڑ، ہاکی، باسکٹ بال، کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں حصہ لیا۔ میرے بڑے بھائی محمد عبداللہ گاؤں میں لڑکوں کے ساتھ کبڈی کھیلا کرتے تھے، انہیں دیکھ دیکھ کر مجھ میں بھی کبڈی کھیلنے کا شوق پیدا ہوا جسے میں نے آگے بڑھایا۔کبڈی کی ابتدائی تربیت بھی اپنے بڑے بھائی سے ہی حاصل کی ہے۔ ان کے بھائی عبداللہ پاکستان آرمی کی طرف سے کبڈی کھیلتے ہیں اور سونیا انہیں اپنا رول ماڈل تصور کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’ہماری گجر برادری میں لڑکیوں کا کھیلوں میں حصہ لینا تو درکنار، ان کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر میں نے جب اپنے بھائی سے کہا کہ آپ کی طرح میں بھی کبڈی کھیلنا چاہتی ہوں تو انہوں نے نہ صرف مجھے اجازت دی بلکہ کھیل کے مختلف گُر بھی سکھائے۔‘سونیا کو یاد ہے کہ جب وہ دسویں جماعت میں تھیں تو انہیں سکول کی طرف سے لاہور میں لگائے گئے ایک کبڈی کیمپ میں شمولیت کی اجازت بھی ان کے بھائی نے ہی دی تھی۔ یہ وہی کیمپ تھا جہاں موجود پاکستان قومی کبڈی ٹیم کے سلیکٹرز سونیا کے کھیل سے بہت متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے انہیں قومی کبڈی کیمپ میں شرکت کے لیے چُنا تھا۔انھوں نے بتایا ’2016 کے اوائل میں اسلام آباد میں ملک بھر سے آئی 50 لڑکیوں کا قومی کیمپ لگا تو میرے بھائی نے مجھے بہت حوصلہ دیا کہ تم اس قابل ہو کہ قومی ٹیم کا حصہ بن سکتی ہو، یہی وجہ تھی کہ یہاں بھی میری کارکردگی شاندار رہی اور مجھے قومی ٹیم کا حصہ بناتے ہوئے مزید ٹریننگ کے لیے ایران بھیج دیا۔سونیا کے بقول شروع میں تنقید کرنے والے رشتے دار اب فخر سے بتاتے ہیں کہ سونیا ہماری بیٹی ہے۔ سونیا اپنے کھیل کے ذریعے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں مگر انہیں شکایت ہے کہ پاکستان میں خواتین کھلاڑیوں کو وہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں جو انڈیا اور ایران جیسے ممالک میں میسر ہیں۔والد اللہ دتہ کا کہنا ہے ’مجھے سونیا پر فخر ہے، میں والدین کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بچیوں کو بھی آگے بڑھنے کا موقع دیں، وہ صلاحیتوں میں لڑکوں سے کم نہیں ہوتیں۔