پیر , 21 ستمبر 2020ء
(638) لوگوں نے پڑھا
چونیاں ضلع قصور کی ایک تحصیل ہے۔ قدیم چونیاں دریا بیاس کے کنارے آبا د تھا۔ مغل دور میں یہاں ایک بہت بڑی چھاؤنی اور اسلحہ کی ایک فیکٹری تھی۔ آج بھی شہر کے مغربی حصے میں اس فیکٹری کی باقیات کی صورت میں بڑےبڑے لوہے کے ٹکڑے مل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے شہر کے گرد سات بڑے ٹیلے تھے جو گیارویں سے اٹھارویں صدی تک کی آبادی کے آثار بتاتے ہیں۔ آج ان ٹیلوں کو ختم کرکے مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں۔ اٹھارویں صدی میں دریائے بیاس کی وجہ سے ایک بڑے سیلاب کے بھی آثار ملتے ہیں۔ سکھ دور کی کچھ حویلیاں بھی خستہ حال میں نظر آتی ہیں۔ جب چونیاں پر راجا راۓ کی حکومت تھی تو یہاں کا ایک ڈاکو پیرا بلوچ نے قصور کے لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا جس کو بڑی مشکل سے ختم کیا گیا۔1720 میں چونیاں کے علاقے ہرچوقی کے مقام پر قصور کے نواب حسین خان اور لاہور کے مغل گورنر عبد الصمد کے درمیان ایک بڑا میدان جنگ سجا جس میں نواب حسین خان کو شکست ہوئی۔ چونیاں کے نام کے حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔ چونیاں لفظ چونی کی جمع ہے جس کا مطلب موتی کے ہیں چونکہ ایک زمانے میں یہاں پر موتیوں کی بہتات تھی اس لیے اس کا نام چونیاں پڑ گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہاں اچھوت لوگ آباد تھے۔ مغل دور میں یہاں ایک مسلمان فقیر جہانیاں آکر رہنے لگے جس نے اسکی تمام آبادی کو مسلمان کر دیا۔ اس بزرگ کا مقبرہ یہاں موجود ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام جہانیاں رکھ دیا گیا جو بگڑتے بگڑتے چونیاں ہو گیا۔ ایک اور روایت کے مطابق جب محمد بن قاسم نے ملتان پر حملہ کیا تو چونیاں ملتان کا زیرنگیں تھا جس پر کمبوں ذات کا ایک ہندو راجہ حکومت کر تا تھا۔ جب محمد بن قاسم نے راجہ سے جنگ کا تاوان مانگا تو اس نے کہا کے میرے پاس اتنی بڑی رقم نہیں ہے لہٰزا میں یہ رقم قسطوں میں دوں گا۔ گارنٹی کےطور پر اس نے اپنے بیٹے ماہا چنوار کو ساتھ بھیج دیا۔ اس نے وہاں جا کراسلام قبول کر لیا۔ جب ساری رقم دے دی تو لڑکا واپس آیا مگر اسے قبول نہ کیا گیا کیونکہ اب وہ مسلمان ہو چکا تھا۔ لوگوں نےاس کو قتل کر دیا۔ بعد کے مسلم حکمرانوں نے اس کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کروایا اور اس علاقے کا نام چنواری پڑ گیا جو بگڑ کر چونیاں ہو گیا۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا تا ہے جب اکبر نے یہ علاقہ اپنے خاص وزیر ٹوڈل مل کو جاگیر کے طور پر دیا تو اس نے اس جگہ کا نام اپنی بیٹی چونی پر رکھا جو بعد میں چونیاں مشہور ہو گیا۔ (بشکریہ معاشرتی علوم فیس بک پیج) کمنٹ میں بتائیں کہ اس میں سے کونسی روایت درست ہوسکتی ہے یا پھر آپ جو سمجھتے ہیں کہ اس جگہ کا نام ایسے پڑا۔