اتوار , 08 ستمبر 2024 ء
گھر کی چھت ٹوٹنے کے بعد متاثرین امداد کے منتظر تیز رفتار بس کی کار کو ٹکر، 2 افراد زخمی دریائے چناب میں نہاتے ہوئے نوجوان ڈوب کر جانبحق اسکول میں لگے بجلی کے کھنبے ناخوشگوار حادثے کا سبب بن سکتے ہیں گلیوں میں پانی جمع ہونے سے اہل محلہ پریشان تازہ ترین خبریں

شورکوٹ کے بارے میں

شور کوٹ

شورکوٹ (shorkot)، پنجاب، پاکستان کا ایک شہر ہے۔ یہ ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کا صدر مقام بھی ہے۔

تحصیل شورکوٹ کا پس منظر

سنسکرت زبان میں لفظ "پورا" کے معنی "شہر" کے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے سبی پورہ یا شیو پورہ کا قدیم شہر جس کا مطلب شیوی شہر  ہے، آج کل "شورکوٹ" کہلاتا ہے(پروفیسر بی ایس ڈھلون کے مطابق) اور یہ پاکستان کے ضلع جھنگ میں واقع ہے۔ یونانی تاریخ دان ڈیوڈورس ، آریان اور اسٹریبو کے مطابق ، سکندر اعظم نےجب پنجاب پر حملہ کیا اس وقت ، سبی پورہ کے آس پاس کے علاقے پر سبی قبائل کے لوگوں کا قبضہ تھا۔
شہر کی تاریخ آبادی سے باہر واقع ٹِبوں میں چُھپی ہوئی ہے
جھنگ شہر سے اٹھاون کلو میٹر جنوب میں واقع شور کوٹ ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔
حضرت سلطان باہو کے والد حضرت ابو زید محمد اور والدہ حضرت بی بی راستی صاحبہ کے مزارات اس شہر میں ہونے کی بنا پر اسے مائی باپ کاشہر بھی کہا جاتا ہے۔
تاریخ کھنگال کر دیکھیں تو شورکوٹ جھنگ سے بھی پرانی تاریخ رکھتا ہے۔
تاریخ دان بلال زبیری اپنی کتاب 'تاریخِ جھنگ' میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر  مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا جیسے کہ سمیر کوٹ، آشور کوٹ، ایشور کوٹ، شیو کوٹ، سور کوٹ، شور کوٹ وغیرہ۔
اُن کے مطابق یہاں موجود کھنڈرات ثابت کرتے ہیں کہ دس ہزار سال قبل مسیح میں بھی یہاں زندگی کے آثار موجود تھے۔
اس بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ یہ شہر قدیم ترین قبائل سمیریوں، بابلیوں اور آشوریوں کے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔
شہر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ فرعون سیاستریس نامی سپہ سالار نے اس کی بنیاد دس ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے رکھی اور اپنے خدا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے ایشور کوٹ کا نام دے دیا لیکن اس بارے میں کوئی واضح تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔
شور کوٹ میں داخل ہوتے ہی قدیم قلعہ "بھڑ" کے آثار واقع ہیں جو سمیری قبائل نے آباد کیا اور یہ قلعہ سمیریوں کے بعد کئی دیگر قدیم قبائل آریا، بھیل، دراوڑ اور آشوریوں کا مسکن رہا۔
325 قبل مسیح میں سکندر اعظم جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ کئی علاقوں سے ہوتا ہوا شورکوٹ پہنچا اس وقت یہاں کٹھیٹھ اور مل قبائل آباد تھے ۔
مؤرخین لکھتے ہیں سکندر اعظم دو ماہ تک اس قلعے کا محاصرہ کرنے کے باوجود اسے فتح نہ کر سکا تو غصے سے سیخ پا ہو کر اسے بھاری منجنیقوں کی مدد سے تباہ کر دیا۔ (بھڑ کا مطلب تباہ ہونا ہے)
سکندر اعظم کے غیض و غضب سے بچ جانے والوں نے قلعے کے شمال میں مختلف جگہوں پر اپنی الگ سے بستیاں آباد کر لیں۔
تاریخ دان یعقوبی کے مطابق محمد بن قاسم نے جب  712ء میں سندھ کو فتح کیا تو اس نے سندھ سے چینوٹ تک کی مختلف ریاستوں کو پانچ صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ جن کو روڑ (روہڑی)، ملتان، برہما پور (شورکوٹ)، جندور (چنیوٹ ) کوٹ کروڑ کے نام دئیے گئے۔
شور کوٹ تحصیل دو حصوں، شور کوٹ شہر اور کینٹ میں تقسیم ہے
محمد بن قاسم کے دور میں پہلی بار شورکوٹ کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور اس کا پہلا مسلمان گورنر جلال الدین محمود غازی کو مقرر کیا گیا۔
یہاں سے شور کوٹ میں مسلمانوں کے دور کا آغاز ہوا۔ محمد بن قاسم کے علاوہ یہ علاقہ عباسی اور فاطمی خلافتوں کا حصہ بھی رہا۔
بلال زبیری لکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے عہد میں شورکوٹ، جھنگ اور کوٹ کروڑ کو صوبہ ملتان میں شامل کر دیا گیا۔
شاہجہاں نے ہی حضرت سلطان باہو کے والد کو ان کی تبلیغی خدمات کے صلہ میں قلعہ قہرگان کے قریب دریائے چناب کے کنارے جاگیر عطا کی جس میں شور کوٹ کا بھی کچھ حصہ شامل تھا۔
مؤرخین کے مطابق صوفی بزرگ سلطان باہو کی پیدائش بھی شور کوٹ کی سرزمین پر ہوئی جنہوں نے اپنی تصانیف میں اس علاقے کا نام قلعہ قہرگان اور شور شریف درج کیا ہے۔ 
انگریزوں کے آنے سے پہلے راجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں شور کوٹ کو ضلع جھنگ کی تحصیل بنا کر اس علاقے کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ انتطامی تبدیلیاں کی گئیں۔
 1908 میں شور کوٹ شہر سے گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ریلوے لائن بچھائی گئی جسے دو سال بعد ہی جنکشن کا درجہ دے دیا گیا۔ جس سے کراچی تا پشاور ریلوے لائن کی آمدورفت ممکن ہوئی۔
1965 کی جنگ کے دو سال بعد پاک فضائیہ نے شورکوٹ میں ائیربیس قائم کیا جس کے بعد شور کوٹ کو کینٹ کا درجہ دے دیا گیا۔
فی الوقت شور کوٹ دو حصوں، شور کوٹ شہر اور شور کوٹ کینٹ میں تقسیم ہے۔
اگرچہ یہ شہر مختلف ادوار میں کئی تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ لاہور سے کہیں پرانا ہے لیکن آج جو مقام لاہور یا ملتان کو حاصل ہے وہ اسے کبھی حاصل نہیں ہو سکا۔
شورکوٹ کے پہاڑی ٹیلے (ضلع جھنگ  ،دریائے سندھ ، دریائے چناب اور دریائے راوی کا درمیانی علاقہ) سبی پورہ کے مقام کو واضع کرتا ہے ، سبی کا قصبہ (پورہ) ، جس کے نقوش کا ذکر شورکوٹ میں بھی ہے "۔ اور آج بھی یہاں  سبی یا سبیہ (پنجاب کا ایک مشہور جٹ قبیلہ) موجود ہے۔

تحصیل شور کوٹ کا محل وقوع 

یہ جغرافیائی لحاظ سے 301 '30'N 72 ° 24'E پر واقع ہے جس کی اونچائی سطح سمندر سے 131 میٹر (433 فٹ) بلند ہے۔ 

تحصیل شور کوٹ میں معیاری تعلیمی ادارے

گورنمنٹ گرلز ھائی اسکول 
گورنمنٹ ھائی سکول شور کوٹ 
نیو مثالی پبلک اسکول شور کوٹ 
دار ارقم اسکول شور کوٹ
دی اسکول آف کڈز ایجوکیشن
الائیڈ اسکول
القلم سائنس اکیڈمی

شورکوٹ میں بولی جانے والی زبان

شور کوٹ میں پنجابی زبان عمومی طور پر مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے، جبکہ قومی زبان اردو بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے، 

تحصیل شور کوٹ میں صحت کے مراکز

تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال شور کوٹ
ظفر اللہ شیخ ہسپتال
حلیمہ سرجیکل ہسپتال
سول ہسپتال 
صفیہ ہسپتال
ڈاکٹر اعجاز چلڈرن ہسپتال

شور کوٹ میں پسندیدہ کھیل

،کبڈی ، فٹبال ، والی بال اور کرکٹ مقبول کھیل ہیں ،اور نوجوانوں کے پسندیدہ کھیلوں میں شمار ہوتے ہیں 

تحصیل شور کوٹ میں موجود مذاہب

شور کوٹ کی اکثریتی آبادی دین اسلام سے تعلق رکھتی ہے،کچھ مذہب عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کی اقلیتی آبادی بھی موجود ہے۔ 
یہ شہر صوفی حضرت سلطان باہوؒ ، سید بہادر علی شاہؒ،  شاہ محمود غازیؒ (جنھیں"غازی پیر" بھی کہا جاتا ہے) اور سید محبوب عالم شاہ گیلانیؒ کے مقبروں کے لئے مشہور ہے۔ سید محبوب عالم شاہ گیلانیؒ کا مقبرہ شہر کے وسط میں ہے۔ ان کی پیدائش مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں ہوئی تھی اور بادشاہ اورنگ زیب  عالمگیرؒ کے زمانے 1079 (ہجری) میں ان کا وصال ہوا تھا۔ اورنگ زیب عالگیرؒ  شورکوٹ میں ان سے ملنے آئے تھے، اور ملاقات کے بعد ان کے شاگرد بن گئے۔ اور شورکوٹ کے آس پاس وسیع و عریض رقبہ سید محبوب عالم گیلانیؒ کے اہل خانہ کو تفویض کیا۔ بعد میں مغل بادشاہ ، شاہ عالم دوم نے پیر محبوب عالم گیلانیؒ کا مقبرہ تعمیر کیا جومغل فن تعمیر کی شاندار  علامت ہے۔ جو ابھی بھی شہر کے وسط میں موجود ہے۔ حضرت سلطان باہوؒ کے مزار شریف کا ایک منظر ذیل میں دیا گیا ہے۔

شورکوٹ کےعوامی لباس

 قمیض شلوار  اور چپل و شوز عمومی لباس ہے، خواتین چادر اور عبایا استعمال کرتی ہیں جبکہ مرد حضرات روائیتی رومال چادر کندھے پر استعمال کرتے ہیں، 

تحصیل شور کوٹ میں رائج رسم و رواج

غمی،خوشی، شادی بیاہ اور دیگر مواقع  پر، یہاں آباد مختلف برادریوں میں اپنے الگ رسم و رواج پائے جاتے ہیں ، لیکن تمام رواجوں اور رسومات میں تھوڑے بہت تفاوت سے یکسانیت  پائی جاتی ہے

تحصیل شورکوٹ کے لوگوں کا مزاج

شورکوٹ کے اطراف میں زرعی زمینیں ہیں جن میں کام کرنے اور پیداوار کو اُگانے کے لیے یہاں کے لوگ محنت اور جفاکشی کے ساتھ امور انجام دیتے ہیں، 
 صحت مندی اور بردبار ی  کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں شائستگی اور ہنس مکھ مزاجی عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔

بحوالہ :- 
https://bisefsd.edu.pk/
https://citypopulation.de/Pakistan

دوسرے شہروں کے بارے میں مزید پڑھیں

Log in to get started

Forgot your password?

New to MeriDharti.pk? Sign up now