چنیوٹ
چنیوٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک شہر ہے۔ یہ ضلع چنیوٹ کا مرکزی شہر بھی ہے۔ یہ دریائے چناب کے کنارے واقع ہے۔ یہ اپنے اعلیٰ پائے کے فرنیچر کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہے۔
پاکستان میں 2008 کی مردم شماری کے مطابق چنیوٹ کی آبادی 9،65،124 ہے۔
بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار کافی مشہور مقامات ہیں۔
تحصیل چنیوٹ کا تاریخی پس منظر
تاریخ سے آگاہی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ لفظ چنیوٹ دو الفاظ ‘‘ چن ‘‘ مطلب چاند اور ’’ اوٹ ‘‘ مطلب کسی چیز کے پیچھے ہونا، کا مجموعہ ہے۔ دریائے چناب اور پہاڑوں کے اس سنگم پر چاند جب پہاڑ کی اوٹ سے جھلکتا ہے، اور اسی کی نرم چاندنی دریا کے پانی پر حُسن بکھیرتی ہے، اس دلکش اور خوبصورت منظر کی مناسبت سے اسے علاقہ کو چنیوٹ کہا جانے لگا۔
البتہ چند سال قبل چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے کی دریافت نے اس شہر کی تاریخ کا منظر نامہ یکسر تبدیل کر دیا ہے، اس سرائے کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ 326 قبل مسیح میں راجا چندر گپت موریا کی رانی چندن نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروایا تھا۔
مورخ لکشمی نارائن اپنی کتاب ’’ چنیوٹ کی تاریخ‘‘ میں لکھتا ہے کہ رانی چندن مردوں کا بھیس بنا کر شکار کی غرض سے چنیوٹ کے علاقہ میں آیا کرتی تھی، شکار کے لیے دریا اور پہاڑوں کا یہ سنگم اس کی پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک تھی، لیکن رہائش کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے رانی چندن کو مشکلات پیش آتی تھیں۔ اس نے دریائے چناب کے بائیں کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی، اور اس کو ’’چندن یوٹ‘‘ کا نام دیا ، جس کے معنی’’ چندن کی جائے پناہ ‘‘ہے
سرائے کی تعمیر میں دیواروں کو مقامی پہاڑوں کے پتھر سے چُنا گیا ہے، اور دیواروں کی چوڑائی 3 فٹ رکھی گئی تھی۔
یہ شائد چنیوٹ کی سرزمین پر کسی عمارت کی رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی، بعد ازاں اس سرائے کے گرد آبادی بڑھنے لگی اور ہوتے ہوتے ایک شہر آباد ہوگیا، جسے چندیوٹ کہا جانے لگا جسے آج دنیا چنیوٹ کے نام سے جانتی ہے۔
تاریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سرائے نما عمارت ایک یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گئی، جہاں بدھ مت کے اعلی علوم و افکار سکھائے جانے لگے، اس علمی درسگاہ کا ذکر کئی پرانی مذہبی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے چند سال قبل اس تاریخی عمارت (سرائے ) کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے ٹیلوں کے نیچے تین الگ مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد سے بھی زائد حصہ دریافت کر لیا تھالیکن باقی رہ جانے والے آثٓر ابھی تک مٹی کے ٹیلوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں،
مذکورہ مقام پر کھدائی کے بعد نمودار ہونے والے تقریبا 3 فٹ چوڑی دیواریں اب واضع دکھائی دیتی ہیں۔ سرگودھا مین تعینات محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ ، کھدائی کے دوران پہاڑ کے دامن سے شمشان گھاٹ (ہندوں کی مردے جلانے کی جگہ) کے آثار بھی ملے ہیں، جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اپنے وقتوں میں یہاں ایک بڑا شہر آباد رہا ہے۔
انھوں نے مذید بتایا کہ اس یونیورسٹی کی ردیافت کے دوران دیواروں میں دبائے گئے مٹکے بھی ملے جنھیں زمانہ قدیم میں لوگ اپنی قیمتی اشیاٗ محفوظ کرنے کے لیے دیواروں یا زمیں میں دفن کر دیا کرتے تھے، مٹکوں میں موجود اس دور کے زیورات وغیرہ محکمہ آثار قدیمہ کے پاس محفوظ ہیں،۔
اعلیٰ عہدیدار کے بقول محکمے کو جیسے ہی مذید فنڈز مہیا ہونگے سرائے یونیورسٹی کے تاریخی مقام پر دوبارہ کام شروع کردیا جائے گا تاکہ ہندو شاہی دور میں آباد اس تاریخی ورثہ شہر کی باقیات اور اس دور کے لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں مذید شواہد دریافت کیے جاسکیں۔
چنیوٹ تحصیل کی معشیت
وسطی پنجاب میں واقع شہر چنیوٹ اپنے چوبی فرنیچرکی صنعت کی وجہ سے مشہور ہے۔
تحصیل چنیوٹ کے اہم تعلیمی ادارے
نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز (این یو فاسٹ) ، چنیوٹ
نصرت جہاں گرلز کالج ، چناب نگر
گورنمنٹ کالج برائے خواتین ، چنیوٹ
آپا عائشہ پبلک اسکول چینیوٹ ، چینیوٹ
قائداعظم پبلک بوائز ایلیمنٹری اسکول ، چینیوٹ
چنیوٹ میں بولی جانے والی زبان
چنیوٹ میں پنجابی زبان عمومی طور پر مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے، جبکہ قومی زبان اردو بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے،
چنیوٹ کے اہم مراکزِصحت
اسلامیہ خیراتی ہسپتال
ایل آر بی ٹی آئی ہسپتال
ای پی آئی سینٹر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چینیوٹ
تحصیل چنیوٹ کے مقبول کھیل
کبڈی ، فٹبال ، والی بال اور کرکٹ مقبول کھیل ہیں ،
پاکستانی کبڈی ٹیموں کے اکثر کھلاڑیوں کا تعلق یہاں سے ہے۔
تحصیل چنیوٹ میں موجود مذاہب
چنیوٹ کی اکثریتی آبادی دین اسلام سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ مذہب عیسائیت سے تعلق رکھنے والوں کی اقلیتی آبادی بھی موجود ہے۔
بادشاہی مسجد چنیوٹ جو بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنائی گئی ہے چنیوٹ کی خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔
اسے پانچویں مغل بادشاه شاہ جہاں کے وزیر سعدالله خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا مسجد مکمل طورپر پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے تمام دروازے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور آج تک اس کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ جس طرح بادشاہی مسجد لاہور کا فرش سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے، اسی طرح اس
مسجد کے صحن کا فرش سنگ مرمر سے بنا تھا۔ جسے 2013ء میں سنگ مرمر سے اینٹوں کے فرش میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم مسجد کا اندرونی فرش ابھی تک سنگ مرمر کاہی ہے۔ مسجد کے سامنے موجود شاہی باغ مسجد کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے۔
تحصیل چنیوٹ میں پہنے جانے والے لباس
قمیض شلوار اور چپل و شوز عمومی لباس ہے، خواتین چادر اور عبایا استعمال کرتی ہیں جبکہ مرد حضرات روائیتی رومال چادر کندھے پر استعمال کرتے ہیں،
تحصیل چنیوٹ کے لو گوں کا عمومی مزاج
چنیوٹ کے اطراف میں زرعی زمینیں ہیں جن میں کام کرنے اور پیداوار کو اُگانے کے لیے یہاں کے لوگ محنت اور جفاکشی کے ساتھ امور انجام دیتے ہیں،
صحت مندی اور بردبار ی کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں شائستگی اور ہنس مکھ مزاجی عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔
بحوالہ :-
https://pbs.gov.pk/ |
https://bisefsd.edu.pk/ |
https://citypopulation.de/Pakistan |