جمعہ , 19 اپریل 2024 ء
گھر کی چھت ٹوٹنے کے بعد متاثرین امداد کے منتظر تیز رفتار بس کی کار کو ٹکر، 2 افراد زخمی دریائے چناب میں نہاتے ہوئے نوجوان ڈوب کر جانبحق اسکول میں لگے بجلی کے کھنبے ناخوشگوار حادثے کا سبب بن سکتے ہیں گلیوں میں پانی جمع ہونے سے اہل محلہ پریشان تازہ ترین خبریں

فیصل آباد شہر کے بارے میں

فیصل آباد 

فیصل آباد (Faisalabad) پنجاب ، پاکستان ، آبادی کے لحاظ سے ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔یہ ڈویژن فیصل آباد کا صدر مقام بھی ہے،جبکہ یہ ضلع، فیصل آبادصدر، فیصل آباد سٹی، سمندری، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ اور چک جھمرہ کی چھ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔

تحصیل فیصل آباد  کا تاریخی پس منظر

ماضی میں یہ علاقہ ویران و سنسان تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے۔ جن کے باسیوں کو جانگلی کہا جاتا تھا۔ اِسے ساندل بار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ساندل بار کی تہذیبی اور معاشرتی روایات اگرچہ اپنے پس منظرمیں ہزاروں برس کی طویل تاریخ رکھتی ہیں لیکن ایک صدی پہلے تک اس ضلع کا شمار برصغیر پاک و ہند کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ ساندل بار کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین مختلف روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دُلاّ بھٹی کے دادا کا نام بجلی خان عرف ساندل تھا، دوسری شاہکوٹ کی پہاڑیوں کے ڈاکو سردار کا نام بھی ساندل تھا اور تیسری یہ کہ جنگل کے چوہڑوں کے سردار کا نام چوہڑ خان عر ف ساندل تھا۔ ان تین میں سے کسی ایک کے نام پر یہ علاقہ ساندل بار مشہور ہوا۔
1885ء میں لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے لاہور سے جھنگ شہر کی طرف سفر کرتے ہوئے تحصیل چنیوٹ میں شامل ساندل بار کے بے آباد مگر سرسبز و شاداب علاقے میں پکی ماڑی کے ایک گاؤں میں پڑاؤ کیا۔ ایک نوجوان انگریز انجینئر کیپٹن نیگ شھی اس کے ساتھ تھا۔ جیمس لائل نے پکی ماڑی میں چند روز کے قیام کے د وران گھوڑوں پر سوار ہو کر پکی ماڑی کے چاروں اطراف کئی کئی میل تک سفر کر کے اس علاقے کو دیکھا۔ کنوؤں کا پانی چکھ کر دیکھا۔ کئی کئی میل کے فاصلے پر مقامی لوگوں نے کچے مکانوں پر مشتمل اپنے گھر تعمیر کر رکھے تھے۔ جیمس لائل نے ساندل بار کے اس علاقے کو زرخیزی کے باعث اس کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے پکی ماڑی سے جنوب مغرب کی طرف تھوڑے فاصلے پر نئے شہر کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ شہر کی تعمیر سے پہلے نہر رکھ برانچ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ دیہات بندی اور سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ سانگلہ ہل سے شور کوٹ تک ریلوے لائن بچھانے کا اہتمام ہوا اور اس طرح دیہات بندی اور مختلف دیہات میں مشرقی پنجاب کے د یہات سے لوگوں کو زرعی رقبوں کی الاٹمنٹ کے منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ سب سے پہلے 1890ء میں جنگل کی کٹائی کرکے موجودہ گھنٹہ گھر کججگہ کنواں بنایا گیا اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق شہر کی بنیاد رکھی گئی اور 1892ء میں نہر لوئر چناب کی تکمیل کے بعد بندوبست کا آغاز ہوا۔
1895ء میں ریلوے کا آغاز ہوا۔ 1899ء میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ اور 1900ء میں خانیوال تک اسے ملا دیا گیا۔ 1896ء میں  جب شہر کی کچھ آبادیاں بھی معرضِ وجود میں آ چکی تھیں اور دفاتر بھی بن چکے تھے تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز بی لائل نے چک 212 کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کی چار ایکڑ زمین کو لائل پور کا نام دیا گیا۔ لائل پور کے کالونائزیشن آفیسر سر کیپٹن پونام ینگ نے یونین جیک کی طرز پر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا نقشہ لائلپور کے لیے بنایا۔
1897ءمیں قیصری دروازے کی تعمیر ہوئی۔ یہ دروازہ لالہ موہن لعل خلف بہاری لعل نے ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ قیصری گیٹ سے تقریباً ایک سو پچاس فٹ کے فاصلے پر گو مٹی تعمیر کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کئی سالوں تک یہ گومٹی مسافر خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اطراف میں ’’برکت دریائے چنا ںدی‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ لائلپور کے آٹھ بازار اور ان آٹھ بازاروں کے دامن میں رہائشی مکانات 1898ء تک تعمیر کے مراحل میں تھے۔ ان بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر تعمیر ہوا۔ اس کا افتتاح 14نومبر 1903ء کو سر چارلس رواز گورنر پنجاب نے کیا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے حکومت نے زمینداروں پر دو ٹکے کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔ اس پر کل چالیس ہزار روپے خرچ ہوا تھا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر انگریزی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس کے چاروں طرف ریل بازار، جھنگ بازار، کچہری بازار، چنیوٹ بازار، بھوانہ بازار، امین پور بازار، منٹگمری بازار اور کارخانہ بازار تعمیر ہوئے۔ ان آٹھ بازاروں میں سے چار کُشادہ اور چار ذرا تنگ ہیں۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر تاج محل آگرہ بنانے والے معماروں کے خاندان کے ایک شخص گلاب خان کی نگرانی میں ہوئی۔ گھڑیال بمبئی کے ایک گھڑی ساز نے فراہم کیا تھا۔ شہر کا ڈیزائن ڈسمنڈ ینگ نے بنایا مگر ڈیزائن کو اصل صورت سر گنگا رام نے دی۔ پہلی بستی ڈگلس پورہ تھی ۔ لائلپور کو 1899ء میں درجہ دوم کی میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔ 1904ء میں اس کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔
کمیٹی کی حدود 19,160 ایکڑ اراضی ، شہر کی آبادی9ہزار اور ایک اینگلو ورنیکلر سکول تھا۔ اس وقت لائلپور تحصیل کی حیثیت سے ضلع جھنگ میں شامل تھا۔ 1906ء میں اسے ضلع کا درجہ دے کر سمندری ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لائلپور کی تحصیلیں شامل کی گئیں جبکہ جڑانوالہ کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ 1911ء میں لائلپور کی آبادی 11 ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں 11 جننگ فیکٹریز تھیں۔بعد ازاں جڑانوالہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ 1979ء میں ضلع بنا دیا گیا تو ضلع لائلپور کی حدود کم ہو گئیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کالونی کی جگہ میلہ منڈی مویشیاں کے لیے مخصوص تھی۔ اسے 1950ء کے عشرے میں سمندری روڈ پر موجودہ علاقہ اقبال کالونی والی جگہ پر منتقل کیا گیا اور 1970ء کے عشرے میں اس سے آگے موجودہ بائی پاس کے پہلو میں منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد غلہ مندی کو کارخانہ بازار اور ریل بازار کے درمیان سے ڈجکوٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کی آبادی آٹھ بازاروں سے باہر سنت پورہ، پرتاب نگر، ہرچرن پورہ، گورونانک پورہ، ماڈل ٹاؤن اور پکی ماڑی کے عقب میں طارق آباد کی کالونیوں تک پھیل چکی تھی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نہر رکھ برانچ کے دوسری طرف پیپلز کالونی اور دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ غلام محمد آباد ، سمن آباد، ڈی ٹائپ کالونی، رضا آباد، افغان آباد، ایوب کالونی اور ناظم آباد کے رہائشی منصوبے 1950ء اور 1960ء کے عشروں میں تعمیر ہوئے۔ بعدازاں مدینہ ٹائون اور پیپلز کالونی کی رہائشی کالونیاں تعمیر ہوئیں۔ گلستان کالونی، گلفشاں کالونی، ملت ٹاؤن وغیرہ کی تعمیر سے شہر کا دامن چاروں اطراف میں کئی کئی میل تک پھیلا۔ تاج کالونی، منصورہ آباد، گلشن کالونی، سِدھوپورہ، خالد آباد، جناح کالونی، شاداب کالونی، راجہ کالونی، ماڈل ٹائون، علامہ اقبال کالونی، عبداللہ پور، واپڈا سٹی، طارق آباد، اسلام نگر، گل بہار، گلبرگ، شالیمار پارک، رچناٹائون وغیرہ اس کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔
فیصل آباد کو قائد اعظم محمد علی جناح کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ قائد اعظم 1943ء میں تحریکِ پاکستان کے دوران یہاں تشریف لائے تھے اور دھوبی گھاٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب فرمایا تھا۔ 1951 ء میں فیصل آباد کی آبادی ایک لاکھ 79 ہزار تھی۔ 1961ء میں چار لاکھ 25ہزار، 1972ء میں آٹھ لاکھ 23 ہزار اور 1991ء میں گیارہ لاکھ چار ہزار تھی۔

تحصیل فیصل آباد  کا محل وقوع 

 ضلع فیصل آباد کے شمال میں حافظ آباد اور شیخوپورہ، مشرق میں ننکانہ اور ساہیوال، جنوب میں ساہیوال اوکاڑہ، مغرب میں جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع واقع ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ ویران و سنسان تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔

 تحصیل فیصل آباد کی صنعتی معشیت 

یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی یارن مارکیٹ ایشیاء کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔ضلع بھر میں تقریبا 400 سے زائد بڑے صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیں۔ جن میں زیادہ تر سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔ صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی فیصل آباد ملک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد 1948ء میں 43ہو گئی۔ اب صنعتی یونٹوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔کپڑے کی صنعت کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، شکر، پلائی ووڈ، چپ بورڈ، مصنوعی کھاد، ہوزری، نشاستہ، گلو کوز، آرٹ سلک، ٹیکسٹائل مشینری اور زرعی آلات  تیار کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں۔صابن سازی کی صنعت بھی خاصی عروج پر ہے۔

فیصل آباد کے معیاری تعلیمی ادارے

فیصل آباد میں 1912ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام عمل میں آیا، جو موجودہ علامہ اقبال لائبریری ہے۔1934ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے۔ 1933ء میں لڑکوں کے کالج اور 1938ء میں لڑکیوں کے کالج کو ڈگری کا درجہ حاصل ہوا۔ 
 اب لڑکوں کا کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح اب فیصل آباد شہر میں درجنوں یونیورسٹیاں اور  کالجز موجود ہیں جن میں سے چند بڑی یونیورسٹیوں کا حوالہ ذیل میں دیا گیا ہے۔
این ایف سی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ فرٹیلائزر ریسرچ (این ایف سی-آئئ ایف آر)
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویج (NUML)
یونیورسٹی آف سرگودھا ، لائل پور کیمپس ، فیصل آباد
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ، لاہور: فیصل آباد کیمپس
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد
زرعی یونیورسٹی ، فیصل آباد
پنجاب میڈیکل کالج / فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی
عزیز فاطمہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، فیصل آباد
گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی (فیصل آباد)
نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی
فیصل آباد یونیورسٹی
یونیورسٹی آف ایجوکیشن
انسٹی ٹیوٹ آف لاگت اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان (آئی سی ایم اے پی)
انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان (آئی سی اے پی)
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اکاؤنٹنٹس (پپفا)
کالج آف فزیشنز اور سرجن آف پاکستان (سی پی ایس پی)
نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز چنیوٹ۔ فیصل آباد کیمپس (فاسٹ این یو۔ NUCES)
گورنمنٹ کالج آف کامرس ، عبد اللہ پور ، فیصل آباد 

فیصل آباد تحصیل میں چند مشہور کالجز کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
چناب گروپ آف اسکولز اینڈ کالجز ، گلشن حیات ، فیصل آباد
ڈویژنل پبلک اسکول اینڈ کالج
گورنمنٹ کالج آف ٹکنالوجی
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج آف کامرس ، پیپلز کالونی فیصل آباد
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج فیصل آباد
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ سائنس کالج فیصل آباد
 جے پی آئی گروپ آف کالجز سمندری روڈ ، فیصل آباد
کے آئی پی ایس کالج
آکسلے کالج آف سائنس
پنجاب کالج آف سائنس
چناب گروپ آف کالجز

 فیصل آباد میں بولی جانے والی زبان

فیصل آباد میں پنجابی زبان عمومی طور پر مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے، جبکہ قومی زبان اردو بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے جبکہ انگریزی زبان کو بھی پنجابی اور اردو زبان کے ساتھ عام بول چال میں استعمال کیا جاتا ہے جس سے اردو اور انگریزی  زبان کے ملاپ سے ایک حسین امتزاج پیدا ہوتا ھے جو بات چیت میں ایک نئی جہت کو جنم دے رہا ھے۔، 

فیصل آباد کے اہم مراکزِ صحت

فیصل آباد اسپیشلسٹ کلینک 
فیصل ہسپتال 
نیشنل اسپتال (فیصل آباد)
طاہر اسپتال (فیصل آباد)
ڈاکٹرز اسپیشلسٹ سینٹر
عزیز فاطمہ اسپتال
عرفان میڈیکل سٹی (پیپلز کالونی)
مجاہد اسپتال (فیصل آباد)
النور اسپتال (فیصل آباد)
مقصودہ  ضیاء اسپتال
فزیوفیٹ
پرائم کیئر ہسپتال (فیصل آباد)
فیصل آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
ساحل ہسپتال
راٹھور اسپتال
منظر میڈیکل سینٹر
میاں محمد ٹرسٹ اسپتال
روبینہ میموریل ہسپتال
یٰسین میموریل ہسپتال

 فیصل آباد میں کھیل 

کبڈی ، فٹبال ، والی بال اور کرکٹ مقبول کھیل ہیں ، 

 فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات

فیصل آباد گو کہ ایک صدی پرانا شہر ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں زیادہ گہری اور قدیم نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے پنجابی شاعری میں سُندر داس عاصی، نند لال پوری اور تیجا سنگھ صابر کے نام نمایاں تھے۔ ان میں سے سندر داس
 عاصی 1906ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ملک کے وقت لدھیانہ (بھارت) میں منتقل ہو گئے تھے۔ ’’پرلے پار‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ نند لال نور پوری ضلع لائلپور (فیصل آباد) کے گاؤں نورپور میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ خالصہ کالج لائلپور میں زیرِتعلیم رہے۔ ادب و انشاء سے طبعی لگاؤ تھا۔ شعر و شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نویسی کی۔ فلم ’’منگتی‘‘ کی کہانی اور مکالمے ا ور گیت وغیرہ ترتیب دئیے۔ آپ کی تصانیف میں نور پریاں، ونگاں، چنگیاڑے، جیوندا پنجاب اور میرے پنجاب شامل ہیں۔ تیجاسنگھ صابر کا تعلق بھی لائلپور سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھارت میں منتقل ہو گئے اور دہلی میں مقیم ہوئے۔
آپ کی تصانیف میں پرچھانویں ، یادگار، پورب دا چانن اور جگدیاں جوتاں وغیرہ شامل ہیں۔مشہور انڈین فلمی گیت کار ساحر لدھیانوی بھی فیصل آباد میں رہے تھے۔فیض جھنجھانوی، رفعت ہاشمی، سعید الفت، صائم چشتی، حزیں لدھیانوی، ثمر فردوسی، جمال الدین، حافظ لدھیانوی، جان جوزف، حامدالوارثی، بخش لائلپوری، علامہ نور بخش توکلی جیسے ادیب اور شاعر بھی فیصل آباد کی دھرتی سے تعلق رکھتے تھے۔موجودہ دور کی جن اہم علمی و ادبی شخصیات کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمد باقر، باری علیگ، حافظ لدھیانوی، ستار طاہر، ظہور عالم شہید، نصرت صدیقی ، افضل احسن رندھاوا، پروفیسر ڈاکٹر محمد اختر چیمہ، شفقت حسین شفقت، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر سعید اختر وارثی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سائنس کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت اختیار کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر سعید اختر دُرّانی 1921ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ سائنسی خدمات کے صِلے میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ یہاں کے ایک اور سائنسدان ڈاکٹر ایم اے عظیم ہیں۔آرٹسٹ ضیاء محی الدین، گلوکار مرحوم نصرت فتح علی خاں اور راحت فتح علی خاں کا تعلق بھی فیصل آباد سے ہے۔ مرحوم نصرت فتح علی خاں نے قوالی اور مخصوص گائیگی میں منفرد مقام حاصل کیا اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ 

فیصل آباد میں مذاہب

فیصل آباد کی اکثریتی آبادی دین اسلام سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ مذہب عیسائیت اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اقلیتی آبادی بھی موجود ہے۔ 

فیصل آباد میں پہنے جانے والے لباس 

 قمیض شلوار، پینٹ کوٹ، جینز اور چپل و شوز عمومی لباس ہے، خواتین چادر اور عبایا استعمال کرتی ہیں ،شہری زندگی میں بہت تیزی سے تبدیلی رونما ہوتی ہے، جس کا اثر رہن سہن کھانے پینے اور پہناوے لباس پر بھی پڑتا ہے، فیصل آباد شہرمیں رہنے والی آبادی میں سے ایک بڑی تعداد بسلسلہ روزگار  بیرون ملک  مقیم ہے، جس سےبیرون ملک کے فیشن اسٹائل اور لباس کی جھلک اس شہر میں بھی پائی جاتی ہے۔ 

 فیصل آباد کے لوگوں کا مزاج 

فیصل آباد کے اطراف میں زرعی زمینیں ہیں جن میں کام کرنے اور پیداوار کو اُگانے کے لیے یہاں کے لوگ محنت اور جفاکشی کے ساتھ امور انجام دیتے ہیں، ایک بڑی تعداد فیکٹریوں ملوں کارخانوں میں ملازمت کرتی ہے، اور ایک بہت بڑا طبقہ بزنس کاروبار سے منسلک ہے، متوسط اور معاشی خوشحالی سے مزاج اور طبعیت پر بہت اثر پڑتا ھے۔ 
 صحت مندی اور بردبار ی  کے نتیجے میں مقامی لوگوں میں شائستگی اور ہنس مکھ مزاجی عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔


بحوالہ :-  https://bisefsd.edu.pk/
   https://pbs.gov.pk/       

دوسرے شہروں کے بارے میں مزید پڑھیں

Log in to get started

Forgot your password?

New to MeriDharti.pk? Sign up now