جمعہ , 29 مارچ 2024 ء
ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ کے پشاور کیمپس کے سنگ بنیاد کی تقریب نواں شہر کے شہید شعیب علی مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کتابوں کے شوقین حضرات کیلئے شاندار موقع، بیش قیمت کتابیں اپنی مرضی کے دام میں صحافی شاکر اللہ مزدوری کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ پشاور میں راج کپور اور دلیپ کمار کے گھروں کی قیمتیں متعین تازہ ترین خبریں

پشاور کے بارے میں

پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے امیر ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔

پشاور کی شہری آبادی بڑھ رہی ہے جس کی وجوہات اردگرد کے دیہات اور خیبرپختونخوا کے دوسرے چھوٹے شہروں کی مقامی آبادی کا روزگار کے سلسلے میں بڑے شہر کو منتقلی، تعلیم اور دیگر خدمات شامل ہیں۔اس کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں فوجی کاروائیوں اور افغان مہاجرین کی آمد سے بھی یہاں کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تعلیمی، سیاسی اور کاروباری اعتبار سے پشاور سب سے آگے ہے اور علاقے کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں طب اور تعلیم کے حوالے سے بہترین تعلیمی اداروں میں سے کئی پشاور میں قائم ہیں۔ خانہ و مردم شماری پاکستان 2017ء کے مطابق پشاور کی آبادی 1،970،042 ہے جو اسے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا اور پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر بناتی ہے۔ تاریخی حوالے سے پشاور کو جنوبی ایشیاء کے چند سب سے پرانے شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 7 ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان میں ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔
پشاور شہر پر یونانیوں نے بھی حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہند کے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 1،20،000 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کئے رکھا۔ افغان (پشتون) شہنشاہ شیر شاہ سوری نے پشاور کی تعمیر نو کو تیزی دی اور اس نے اپنی دہلی سے کابل کی شاہراہ درہ خیبر کے راستے سولہویں صدی میں بنوائی اور بعد میں مغلوں نے پشاور پرقبضہ کر لیا۔ مغل بادشاہت کا بانی بابر جب موجودہ دور کے ازبکستان سے پشاور پہنچا اور بگرام کا شہر آباد کرایا اور 1530ء میں قلعہ دوبارہ بنوایا۔ بابر کے پوتے اکبر نے اس کا نام بدل کر پشاوا کر دیا جس کا مطلب ہے "سرحد پر واقع جگہ"۔ دنیا بھر سے مسلمان صوفیا، مشائخ، استاد، معمار، سائنس دان، تاجر، سپاہی، افسرِ شاہی، ٹیکنو کریٹ وغیرہ غول در غول جنوبی ایشیا کی اسلامی سلطنت کو آن پہنچے۔ مغربی ایران کی طرح یہاں بھی شجر کاری اور باغات اگانے سے پشاور شہر "پھولوں کا شہر" بن گیا۔

خوشحال خان خٹک جو مشہور افغان/پشتون شاعر تھے، پشاور کے نزدیک پیدا ہوئے اور ان کی زندگی پشاور سے وابستہ رہی۔ افغان آزادی کی حمایت کرنے کی وجہ سے یہ مغل بادشاہوں بالخصوص اورنگزیب کے لیے مستقل سر درد بنے رہے۔ اٹھارویں صدی میں ناصر شاہ کے دورِ حکومت میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد پشاور پر ایران نے قبضہ کر لیا۔
1747ء میں لوئیہ جرگہ نے پشاور کو افغان درانی سلطنت کا حصہ بنا دیا جس پر اس وقت احمد شاہ درانی کی حکومت تھی۔ 1776ء میں احمد شاہ کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارلحکومت بنایا اور بالا حصار کا قلعہ افغان بادشاہوں کی قیام گاہ بن گیا۔ درانی دورِ حکومت میں پشتونوں نے جنوبی ایشیا پر حملوں میں حصہ لیا۔ انیسویں صدی کے آغاز پر سکھوں کے قبضے تک پشاور درانیوں کے سرمائی دارلحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
پشاور پر مختصر عرصے کے لیے مرہٹوں کا قبضہ بھی رہا جو ہندوستان کی سلطنت پر قابض تھے۔ انہوں نے 8 مئی 1758ء کو قبضہ کیا۔ بعد میں افغان درانیوں کے بڑے لشکر نے 1759ء میں پشاور پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
1812ء میں پشاور پر افغانستان کا قبضہ ہوا لیکن جلد ہی اس پر سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ برطانوی مہم جو اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابقہ ایجنٹ ولیم مور کرافٹ کی سربراہی میں ایک مہم پہنچی تو اسے کابل کی حکومت اور لاہور کے سکھ حکمرانوں سے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ مور کرافٹ کو پشاور کی گورنر کا عہدہ بھی پیش کیا گیا اور علاقے کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری پیش کی گئی جسے اس نے رد کر کے اپنا سفر پشاوری فوجیوں کے ساتھ ہندوکش کا سفر جاری رکھا اور کابل جا پہنچا۔ 1818ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834ء میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا اس کے بعد شہر کا زوال شروع ہو گیا۔ مغل دور کے بہت مشہور سارے باغات تباہ کر دیے گئے۔ سکھوں کے نمائندے کے طور پر اطالوی باشندے پاولو آویتابائل نے حکمرانی کی اور اس کے دور کو پھانسیوں اور سولیوں کا دور کہا جاتا ہے۔ پشاور کی مشہور مسجد مہابت خان جو 1630ء میں بنائی گئی تھی، کو سکھوں کے دور میں تباہ کر دیا گیا۔

سکھ مت کو قائم رکھنے کے لیے ہری سنگھ نلوہ نے گوردوارہ بھائی جوگا سنگھ اور گوردوارہ بھائی بیبا سنگھ بنوائے۔ اگرچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد پشاور سے سکھوں کی آبادی انتہائی کم ہوگئی ہے لیکن پھر بھی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے پناہ کی تلاش میں آنے والے 4000 سکھوں کی وجہ سے آبادی پھر کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی۔ پشاور کے سکھ خود کو پشتون کہلاتے اور بطور مادری زبان ہندکو بولتے ہیں۔
1835ء میں دوست محمد خان کو شہر پر قبضے میں اس وقت ناکامی ہوئی جب اس کی فوج نے دل خالصہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوست محمد خان کا بیٹا محمد اکبر خان 1837ء کی جمرود کی جنگ میں پشاور پر قبضے میں تقریباً کامیاب ہو گیا تھا لیکن پھر اسے ناکامی ہوئی۔ سکھوں کی حکمرانی 1849ء میں اس وقت ختم ہوئی جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ جیت لی۔
1849ء میں سکھوں کے ساتھ دوسری جنگ کے بعد پشاور انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1857ء کی سپاہیوں کی بغاوت کے بعد مقامی فوجیوں کے 4000 افراد کو بغیر خون بہائے غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس طرح 1857ء کی بغاوت کے بعد پورے ہندوستان میں ہونے والے خون خرابے سے پشاور بچ نکلا۔ مقامی سرداروں نے برطانوی راج کا ساتھ دیا۔ شہر کے باہر کے پہاڑوں کے نقشے 1893ء میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ نے بنائے جو اس وقت برٹش انڈیا حکومت کا خارجہ سیکریٹری تھا۔ اس نے افغان حکمران عبدالرحمان خان کے ساتھ مل کر افغان سرحد کا نقشہ بنایا۔

1868ء میں شہر کے مغرب میں برطانیہ نے ایک بڑی چھاؤنی قائم کی اور پشاور کو اپنا سرحدی مرکزی مقام بنا دیا۔ مزید برآں پشاور میں انہوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جن میں شہر کو بذریعہ ریل ملک کے دیگر حصوں سے ملانے اور مسجد مہابت خان کی تعمیر و تزئین شامل ہے۔ برطانیوں نے کننگہیم کلاک ٹاور بھی بنایا جو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریباًت کے سلسلے میں بنایا گیا تھا۔ 1906ء میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں وکٹوریہ ہال بنایا جہاں اب پشاور کا عجائب گھر قائم ہے۔ مغربی تعلیم دینے کے لیے برطانیہ نے ایڈورڈز کالج اور اسلامیہ کالج 1901ء اور 1913ء میں بالترتیب بنائے اور بہت سارے اسکولز بھی بنائے جن کو اینجلیکن چرچ چلاتا ہے۔
پشاور پشتون اور ہندکو مشاہرین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ ہندکو بولنے والے افراد برطانوی راج میں یہاں کی ثقافت پر غالب اثر رکھتے تھے۔
پشاور میں ہی غفار خان کی چلائی ہوئی عدم تشدد کی تحریک سامنے آئی جو موہن داس گاندھی سے متاثر تھی۔ اپریل 1930ء میں مقامی افراد کے بڑے گروہ نے قصہ خوانی بازار میں پرامن مظاہرہ کیا کہ ان کے خلاف برطانیہ نے امتیازی قوانین بنائے ہیں۔ برطانوی افواج کی فائرنگ سے 400 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے اور ان 400 شہیدوں کی یاد میں ایک یادگار بھی یہاں موجود ہے جسے یادگار شہیداں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1947ء میں پشاور ڈومنین پاکستان کا حصہ بن گیا کہ مقامی سیاست دانوں نے پاکستان میں شمولیت کی منظوری دی۔ اگرچہ اکثریت اس الحاق کے حق میں تھی لیکن خان عبدالغفار خان کی قیادت میں ایک چھوٹے گروہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا میں ایک کنفیڈریشن زیادہ بہتر ہوتی اور انہوں نے متحدہ ہندوستان کو بہتر سمجھا۔ تاہم عوام کی بھاری اکثریت متحدہ ہندوستان اور خود کو ہندوستانی کہلوانے کے سخت مخالف تھے۔ انتہائی قلیل تعداد پشاور کو افغانستان میں شامل دیکھنا چاہتی تھی۔ یہی خیال بعد ازاں پشتونستان کی بنیاد بنا جو پاکستان اور افغانستان، دونوں سے آزاد ریاست ہوتی۔

نئے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے افغانستان نے دو رخہ حکمت عملی تیار کی تاکہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو عدم استحکام کا شکار بنا سکے۔ ایک طرف تو اس نے پاکستان کے مخالف بھارت سے دوستی کی تو دوسری طرف روس کے ساتھ بھی دوستی شروع کر دی جو بالآخر افغانستان پر روسی حملے پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف اس نے 1960ء کی دہائی میں اپنی مرضی کے سیاست دانوں کو معاشی امداد مہیا کی۔ 1960ء کی دہائی سے 1970ء کی دہائی تک اس حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ رہا تاہم بعد میں عوام کی اکثریت نے پاکستان کو قبول کر لیا، تاہم پنجابی طبقہ اشرافیہ کے خلاف ان کی ناپسندیدگی بڑھتی رہی۔ پشتونوں کو پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاست اور قومی افسرِ شاہی میں بھی آنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں ایوب خان جو ایک پشتون تھے، پاکستان کے صدر بن گئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کا حصہ بننے کو قبول کر لیا اور ایک انتہائی چھوٹی اور غیر اہم سیاسی جماعت پختونخوا ملت پارٹی نے پاکستان اور افغانستان سے علیحدگی کی باتیں جاری رکھیں۔ اگرچہ علیحدگی کی تحریک بہت کمزور تھی لیکن پاک افغان تعلقات میں اس کی وجہ سے مستقل دراڑ پڑ گئی۔ آج پشاور کے پشتون خود کو فخریہ پاکستان کے رکھوالے اور پاکستانی کہلاتے ہیں۔
1950ء کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012ء میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ "وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیئے جائیں گے"۔
شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر برے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضا مزید آلودہ ہو رہی ہے۔

گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔
1980ء میں افغان جنگ کی وجہ سے پشاور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ مجاہدین گروپوں کے سیاسی مرکز اور افغان مہاجر کیمپوں کا مرکز رہا۔ اکثر روسی جاسوس ان گروہوں میں گھس کر تشدد کو ہوا دیتے رہے اور روسی اور امریکی ایجنٹوں کے درمیان میدانِ جنگ پشاور میں بن گیا۔
1988ء کے انتخابات کے دوران میں تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین یہاں آباد تھے اور غیر رجسٹر شدہ مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بہت سارے نسلی پشتون افغان آسانی سے پشاور میں مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں اور ابھی تک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔

2012ء میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان میں رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔ طالبان شدت پسندوں کا نشانہ ہونے کی وجہ سے یہاں پشتون تعمیرات کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حتیٰ کہ پشتون شاعر رحمان بابا کے مزار کو 2009ء میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔

خیبر پختونخوا کی طرح درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع پشاور سطح مرتفع ایران کا حصہ ہے۔ حالیہ جغرافیائی دوروں میں وادی پشاور میں سلٹ، ریت اور پتھر جمع ہوتے رہے ہیں۔ دریائے کابل اور بدنی نالا کے درمیان میں سیلابی میدان ہیں جو شمال مغرب میں وارسک تک جاتے ہیں۔ پشاور کے میدان میں داخل ہوتے ہوئے دریائے کابل کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں دو زیادہ بڑی ہیں۔ مشرق کو جانے والی شاخ ادیزئی دریا کہلاتی ہے جو چارسدہ کو جاتی ہے اور شاہ عالم شاخ آگے جا کر دریائے نگومن میں مل جاتی ہے۔

پشاور کا موسم نیم بنجر ہے اور گرمیاں بہت سخت جبکہ سردیاں نسبتاً سرد ہوتی ہیں۔ سردیوں کا موسم نومبر سے شروع ہو کر مارچ کے اواخر تک اور کبھی کبھار اپریل کے وسط تک چلا جاتا ہے۔ گرمیاں وسط مئی سے وسط ستمبر تک جاتی ہیں۔ گرمیوں میں گرم ترین مہینوں کا اوسط درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے اور کم سے کم اوسط 25 ڈگری ہے۔ سردیوں کا اوسط کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 15.35 ڈگری رہتا ہے۔ سردیوں میں اکثر یہاں درجہ حرارت 0 ڈگری کے قریب چلا جاتا ہے مگر 7 جنوری 1970 کے دن پشاور میں آج تک کی سب سے زیادہ سردی ریکارڈ کی گئی اور درجہ حرارت منفی 3.9 ڈگری تک چلا گیا۔
پشاور مون سون علاقے میں نہیں آتا تاہم بارش سردیوں اور گرمیوں میں بھی ہوتی رہتی ہے۔ مغربی اثرات کی وجہ سے فروری اور اپریل میں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ سردیوں کی سب سے زیادہ بارش کی مقدار فروری 2007ء میں ریکارڈ کی گئی جو 236 ملی میٹر تھی۔ گرمیوں کی سب سے زیادہ بارش جولائی 2010ء میں 402 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ اسی دوران میں 29 جولائی 2010ء کو چوبیس گھنٹے میں بارش کا نیا ریکارڈ قائم ہوا جو 274 ملی میٹر تھا۔ سردیوں میں ہونے والی بارش گرمیوں کی نسبت زیادہ رہتی ہے۔ 30 سال کے ریکارڈ کے مطابق سالانہ بارش کی اوسط مقدار 400 ملی میٹر ہے اور سب سے زیادہ ایک سال میں 904.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے جو 2003ء میں ہوئی تھی۔ ہوا کی رفتار دسمبر میں 5 ناٹ جبکہ جون میں 24 ناٹ تک ریکارڈ ہوئی ہے۔ جون میں ہوا میں اوسط نمی کا تناسب جون میں 46 فیصد جبکہ اگست میں 76 فیصد ہے۔ 18 جون 1995ء کو سب سے زیادہ 50 ڈگری جبکہ کم سے کم درجہ حرارت 7 جنوری 1970ء میں منفی 3.9 ڈگری ریکارڈ کیا گیا ہے۔

دوسرے شہروں کے بارے میں مزید پڑھیں

Log in to get started

Forgot your password?

New to MeriDharti.pk? Sign up now